[go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

محسن بھوپالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محسن بھوپالی اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی

آپ کئی ضرب المثل اشعار کے خالق ہیں ان کی شاعری نے ہر طبقۂِ فکر میں زبردست پزیرائی حاصل کی

اور ان کے اکثر اشعار ہر دور میں زباں زدِعام ہوئے اور ان کی فنّی شناخت بنے۔

محسن بھوپالی
فائل:Bhopali.jpg
ادیب
پیدائشی نامعبد الرحمن
قلمی ناممحسن بھوپالی
ولادت29 ستمبر 1932ء بھوپال
ابتداہوشنگ آباد، انڈیا
وفات17 جنوری2007ء کراچی (سندھ)
اصناف ادبشاعری
ذیلی اصنافغزل، نعت
تصنیف اولشکستِ شب
تصنیف آخرمنظر پتلی میں
معروف تصانیفشکستِ شب ، جستہ جستہ ، نظمانے ، ماجرا ،گردِمسافت موضوعاتی نظمیں ، منظر پتلی میں ، روشنی تو دیے کے اندر ہے اور شہر آشوب کراچی۔کینیڈااور امریکاکا سفر نامہ، ، حیرتوں کی سرزمین، نقد ِسخن ، قومی یکجہتی میں ادب کا کردار
ویب سائٹ/ آفیشل ویب گاہ

نام

[ترمیم]

محسن بھوپالی کا اصل نام عبد الرحمن تھا

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنا تخلص محؔسن اپنے بچپن کے عزیز دوست محمد محسن کے نام پر رکھا، جو بعد میں قیامِ پاکستان کے وقت ہندوستان میں ہی رہ گئے

پیدائش

[ترمیم]

محسن بھوپالی کی پیدائش 29ستمبر 1932ء میں بھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت

[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم حبیبیہ مڈل اسکول اور الیگزینڈرا ہائی اسکول بھوپال سے حاصل کی۔ دادا سے قصص الانبیاء ، تاریخ اسلام وغیرہ پڑھیں۔ دادا کے کتب خانے سے اکتساب فیض کیا۔

پاکستان آمد

[ترمیم]

قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہو گیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہو گئے۔1951ء میں ہائی اسکول لاڑکانہ سے میٹرک اور1954ء میں گورنمنٹ کالج سے انٹر کیا۔ اسی زمانے میں اپنا مشہور زمانہ شعر کہا جسے پاکستانی سیاست میں سند کی حیثیت حاصل ہے۔

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے


منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے


بعدازاں1957ءمیں این ای ڈی گورنمنٹ کالج کراچی سے انجینئری میں تین سالہ ڈپلوما کیا اور 1974 میں جامعہ کراچی سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔1959ء میں آپ نے سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان بھی پاس کیا۔1979ء میں جامعہ کراچی سے ایم۔ اے اُردواور 1987ءمیں اردو کالج کراچی سے ایم۔ اے صحافت کیا۔

سرکاری خدمات

[ترمیم]

12 جون 1952ءکو آپ حکومت سندھ کے محکمہ تعمیرات میں اورسیئر بھرتی ہوئے اور 28جولائی 1993کو بحیثیت ایگزیکٹو انجینئرریٹائرہوئے۔ لیکن ان کی وجہ شہرت بحرحال شاعری ہی رہی۔ دس کتابوں کے خالق تھے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شکست شب‘ انیس سو اکسٹھ میں منظر عام پر آیا۔ جس کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’گرد مصافت‘ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ’جستہ جستہ‘، ’نظمانے‘ اور ’ماجرہ‘ ان کے قابل ذکر مجموعے ہیں۔

عائلی زندگی

[ترمیم]

آپ کی شادی 19، فروری 1956ء کومسماۃ مقبول کشور سے ہوئی جن سے دو بیٹیاں اور چار بیٹے پیدا ہوئے۔ آپ کے فنی سفر کا آغاز 1947میں پاکستان آمد کے ساتھ ہی ہو گیا تھا تاہم 1948ء میں ملک کے معروف ادبی جریدوں میں آپ کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا۔

تصنیفات

[ترمیم]

آپ کی شعری کتب میں شامل ہیں:

  • شکستِ شب (1961ء)
  • جستہ جستہ (1969ء)
  • نظمانے (1975ء)
  • ماجرا (1995ء)
  • گردِمسافت (1988ء)
  • موضوعاتی نظمیں (1993ء)
  • منظر پتلی میں (ہائیکو ۔ مختصر ںظمیں) (1995ء)
  • روشنی تو دیے کے اندر ہے (1966ء)
  • شہر آشوب کراچی (1997ء)
  • کلیاتِ محسن بھوپالی
  • منزل (غزلیں، نظمیں، نظمانے)
  • کلیاتِ محسّن بھوپالی ( 2019ء )

آپ کی نثری کتب میں شامل ہیں:

  • کینڈا اور امریکا کا سفر نامہ
  • حیرتوں کی سرزمین
  • نقدِ سخن (مضامین)
  • قومی یکجہتی میں ادب کا کردار (مشاہیر ادب کے انٹرویوز)۔[1]

دو مسودے جو شائع نہ ہو سکے:

  • ریگزار کے پھول (سندھی شعرا کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ)
  • نقدِ سخن دوسرا حصہ (ادبی مضامین اور ادبی شخصیات کے انٹرویو پر مشتمل مسودہ)

شاعری

[ترمیم]

محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انھوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
خرد بھی زیر دام ہے، جنوں بھی زیر دام ہے
ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

1988ء میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا۔ اس کے بعد انھیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی اس کے باوجود انھوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

وفات

[ترمیم]

محسن بھوپالی کا 17 جنوری 2007ء بروز بدھ کو کراچی میں نمونیا کی وجہ سے انتقال ہوا۔[2]

حوالہ جات

[ترمیم]