[go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

بدھ مت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بدھ مت

بانی گوتم بدھ
مقام ابتدا بودھ گیا، بہار، شمالی ہند
(موجودہ دن میں،  بھارت)
تاریخ ابتدا چھٹے صدی قبل مسیح میں
ابتدا ہندو مت سے
فرقے مہایان (وجریان، زین بودھ مت) اور تھیرواد،۔۔۔
قریبی عقائد والے مذاہب ہندو مت، سکھ مت، جین مت، تاؤ مت، چینی لوک مذہب۔
مذہبی خاندان دھرمی ادیان۔
پیروکاروں کی تعداد 520 ملین (2015ء)[1] (دنیا میں۔۔۔)
دنیا میں  چین  جاپان
 تھائی لینڈ  جنوبی کوریا
 میانمار  ویت نام
 انڈونیشیا  شمالی کوریا
 کمبوڈیا  منگولیا
 بھوٹان  تبت
اور باقی تمام ممالک میں اقلیت ہیں۔

بُدھ مت ایک مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرز عمل كو محیط كيا ہوا ہے، جس کی زیادہ تر تعلیمات کی بنیاد سدھارتھ گوتم کی طرف منسوب ہیں، عام طور پر بدھ (سنسکرت "ايک جاگت") کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب بودھ مت بھی ہے۔ بدھا کچھ چوتھی سے پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیان میں شمال مشرقی بر صغیر میں رہتے تھے اور تعليمات ديتے تھے۔ انہيں بودھ مت لوگ "ایک جاگت" یا "روشن خیال ٹیچر" كے نام سے مانتے ہیں۔ انھوں نے حیات احساسی کو مشکلات سے نجات حاصل كرنا،نروان كو حاصل كرنا اور تکلیف اور دوسرے جنموں كی مشكلات سے بچنا سكھايا۔

گوتم بدھ

[ترمیم]

گوتم کپِلا وستو میں ہمالیہ کی ایک ریاست میں پیدا ہوئے تھے۔ جہاں آریائی قبیلہ ساکیہ یا شاکہہ آباد تھا، اس کے سردار یا راجا شدودھن کا لڑکا تھا۔ گوتم کی ماں کا نام مایا یا مہامایا تھا۔ گوتم کے سال ولادت میں سخت اختلاف ہے۔ عام طور پر 563 ق م بتایا جاتا ہے۔ نیز یہ مسئلہ تنازع فیہ ہے کہ گوتم کا اصل نام کیا تھا۔ بعض لوگوں نے سدارتھ پہلا نام اور گوتم قبائیلی نام بتایا ہے۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق ان کا اصل نام گوتم تھا اور سدارتھ، ساکیہ منی، ساکھیہ سہنا، جن بھاگوا، لوک ناتھ اور دھن راج وغیرہ ان کے القاب تھے، جو ان کے متعقدین نے انھیں دیے تھے۔ گوتم کے بچپن کے حالات مستند کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں وہ عقدت مندوں کی عقیدت سے اس طرح متاثر ہوئے ہیں کہ تاریخی معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ بہرحال اتنا پتہ چلتاہے کہ انھوں نے رواج کے مطابق علوم و فنون اور سپہ گری میں مہارت پیدا کی اور کمسنی میں ان کی شادی یشودھرا سے کردی گئی۔ آخر بعض روایات کے مطابق گوتم کی عمر جب تیس کی ہوئی تو ان میں ذہنی تبدیلی ہوئی اور کچھ طبعی رجحان اور کچھ زندگی کے تلخ واقعات نے گوتم کو مجبور کیا کہ وہ ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے حصول کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ اس ذہنی خلفشار کے زمانے میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہو گیا تو وہ بول بڑے مجھے یہ نیا رشتہ توڑ نا پڑے گا۔ آخر بعض روایات کے مطابق گوتم اسی شب گھر کو چھوڑ کر جنگل نکل گئے۔ جہاں انھوں نے چھ سال تک مختلف ریاضتوں میں گزارے۔ جس میں گھاس بھونس پر گزارہ، بالوں کے کپڑوں کا پہنا، گھنٹوں کھڑے رہنا، کانٹوں میں لیٹ جانا، جسم پر خاک ملنا، سر اور ڈارھی کے بال نوچنا۔ اس طرح کے سخت مجاہدات میں مشغول رہے۔ آخر ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ جسم کی آزادی اور اس طرح کے مجاہدات سے تسکین ناممکن ہے اور یہ طریقہ مسائل حل کرنے سے قاص رہیں۔ چنانچہ انھوں نے باقیدہ کھانا پینا شروع کر دیا اور اپنے چیلوں سے یہ کہا کہ ریاضت کے یہ تمام طریقہ غلط ہیں۔ چنانچہ وہ انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔[2]

نروان

[ترمیم]

چیلوں کے چلے جانے کے بعد گوتم سخت ہیجان میں مبتلا ہو گئے۔ آخر وہ بدھ گیا میں جو اس وقت غیر آباد علاقہ تھا، وہاں ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اس واقعہ کے بعد انھوں نے تہیہ کر لیا کہ جب تک ان پر حقائق ظاپر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مراقب رہیں گے۔ دفعتاً غروب آفتاب کے وقت ان کے ذہن میں ایک چمک پیدا ہوئی اور ان پر یہ حقائق منکشف ہوئے کہ ”صفائے باطن اور محبت خلق“ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے اور تکلیف سے رہائی کے یہی دو طریقہ ہیں۔ انھوں نے حیات کے چشمہ موت اور زندگی کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا۔ ہر حیات کو موت سے اور موت کو حیات وابستہ پایا۔ ہر سکون اور ہر خوشی کو نئی خواہش نئی مایوسی اور نئے غم کے دوش بدوش پایا۔ زندگی کو موت سے ملاقاتی ہوتے پھر اپنے کرم کے مطابق جنم لیتے دیکھا۔ اس نوری کفیت اور انکشاف کے بعد وہ بدھ یعنی روشن ضمیر ہو گئے اور انھیں یقین ہو گیا کہ وہ غلطی اور جہالت کے دھندلکوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ان کی زندگی خواہشوں اور الائشوں سے آزاد ہو چکی ہے اور انھیں تناسخ کے چکر سے نجات مل چکی ہے۔ انسانی مصائب کا علاج جان لینے کے بعد وہ بنارس آئے اور وہاں ایک مقام مگادیہ میں قیام کیا۔ ان کے چیلے جو انھیں چھوڑ گئے یہاں آن ملے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے چیلوں کو اپنی تعلیمات سے روشناس کرایا اور زندگی و موت کے حقائق انھیں سمجھائے۔ آخر وہ ان سے متاثر ہوکر ان کے دین میں داخل ہو گئے، پھر انھوں نے اپنی دعوت کو عام کیا اور تین ماہ یہاں قیام کیا۔ ان کی بزرگی و علم کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مذہب میں داخل ہو گئے۔ یہاں سے گوتم راج گڑھ گئے۔ اس وقت مگدھ کا راجا بمبارا تھا۔ اس نے گوتم کا خیر مقدم کیا اور ایک باغ ان کے قیام کے لیے وقف کر دیا۔ یہاں گوتم نے کئی سال گزارے۔ وہ ہر سال گرمی اور جاڑے میں تبلغ کے لیے نکلتے اور برسات میں واپس آجاتے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ راجا بہار ادر اجات سترہ نے گوتم سے ملاقاتیں کیں اور انھوں نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔ الغرض چند سال کے اندر گوتم کا مذہب تیزی سے پھیل گیا۔ پھر کپل وستو میں باپ کے بلانے پر آئے اور گھر والوں سے ملاقاتیں کیں، مگر راج گڑھ واپس آ گئے اور تقریباً چوالیس سال تک گوتم اپنے مذہب کی تبلخ کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر گئے۔ ان کی حیات میں ان کا مذہب تیزی سے مقبول ہو گیا اور دور دور تک ان کے مبلغین ہندوستان کے ہر حصہ میں پہنچ گئے اور لوگوں کو اس نئے مذہب سے روشناس کرایا۔ عام روایات کے مطابق گوتم نے 80 سال کی عمر میں 384 ق م میں وفات پائی۔ ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نذر آتش کردی گئی۔[3]

تعلیمات

[ترمیم]

گوتم کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا۔ اس لیے ایک عرصہ تک ان کی تعلیمات زبانی منتقل ہوتی رہیں۔ تقریباً تین سو سال کے بعد 252 ق م میں اشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انھیں ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کتابیں تری پٹک یعنی تین ٹوکریوں کے نام سے منسوب ہوئیں۔ مگر حقیقت میں یہ تین سے زائد ہیں، یعنی ہر کتاب کئی کتابوں پر مشتمل ہیں۔ یہ اشوک کے عہد میں بہار کی زبان پالی میں قلمبند کی گئیں تھیں۔ مگر اصل جلدیں بہت جلد ناپید ہوگئیں۔ ان کی نقل مہند لنکا لے گیا تھا۔ وہاں ان کا ترجمہ سنگھالی زبان میں ہوا۔ وہ نقل بھی اصل کی طرح معدم ہوگئیں۔ مگر سنگھالی زبان کا ترجمہ رہے گیا، جسے 143؁ء میں ایک گیا کے راہب گھوش نے اصلی تسلیم کرتے ہوئے اس کا پالی میں ترجمہ کیا۔ پاک و ہند میں اب یہی تری پٹک سے مستند اور قدیم سمجھی جاتی ہیں۔ حافظہ کی کمزوری اور ترجمہ کے ہیر پھیر کے بعد گوتم کی تعلیمات کہاں تک پہنچی یہ بتانا مشکل ہے۔ بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کر دیا ہے، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بات صاف کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ روح کی وضاحت کی ہے، بلکہ اسے مادہ کا جز کہے کر خاموشی اختیار کی ہے۔ جنت و جہنم، حشر ونشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انھوں نے پس پشت دال دیا ہے اور آواگون کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فناء ہوتی ہیں۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئی ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے۔ اس میں کوئی شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے۔ گوتم نے ان تمام مسائل کی وضاحت اور تشریح کے بغیر اخلاقی احکام کی تلفین کی ہے، جس کے ذریعے نروان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں گوتم نے والدین، اولاد، استاد و شاگرد، خادم و آقا اور شوہر و بیوی کے فرائض، حقوق اور زمہ داریاں بتائیں ہیں۔ انھوں نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور انھیں برائی سے بچائیں، نیز ان کے لیے ترکے کی شکل میں معاش مہیا کریں۔ اولاد کو حکم دیا کہ وہ والدین کی اطاعت اور احترام کریں۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو شفقت، محبت، ہمدردی، احترام، وفاداری، ہنرمندی، مساوات، حسن سلوک، ادب اور تعظیم کی ہدایت کی ہے۔ گویا ایک فلسفی کی موجودات کے اجزاء ترکیبی سے بحث کی ہے۔ پھر انسان کی خصوصیات اور صفات و روپ پر ایک تفصیلی بحث کی ہے، جس سے ایک مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ گوتم مذہب کے تمام فطری مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے۔ یہی وجہ ہے بدھ مذہب ان لوگوں کے درمیان میں توپھیل سکا، جو بت پرست اور اوہام پرست تھے۔ مگر اہل مذہب کے مقابلے میں قطعی ناکام رہا۔[4]

سنگھ

[ترمیم]

بودھ مذہب کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا۔ اس لیے جیسے جیسے معتقدین کا حلقہ بڑھتا چلا گیا تو راہبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر جلد ہی گوتم نے محسوس کر لیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہو سکتاہے اور مذہب کو محض راہبوں تک محدود درست نہیں ہے۔ لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کر دیا۔ راہبوں کی ایک انجمن بنائی گئی، جو سنگھ کے نام سے موسوم ہے۔ سنگھ کے ممبروں کو بھکشو کا خطاب دیا گیا اور ان کے لیے اہم شرائط و احکام وضع کیے گئے۔ اوائل میں سنگھ کے تمام ممبر سمجھے جاتے تھے۔ پھر ان میں عہدہ دار ابھرنے لگے اور ان کا صدر مذہبی پیشوا بن گیا۔[5]

سنگھ کی مجالس

[ترمیم]

عام روایات کے مطابق سنگھ کی پہلی مجلس گوتم کی موت کے فوراً بعد راج گڑھ میں منعقد ہوئی تھی اور دوسری مجلس سو سال کے بعد ویشالی میں بلائی گئی تھی اور اس میں نزاعی مسائل زیر بحث آئے تھے۔ مگر ان دونوں مجالس کے انعقاد کی مستند ذرائع سے تصدیق نہیں ہوتی ہے، اس لیے تین سو سال کے بعد اشوک کے عہد کے میں جو مجالس بلائی گئی، وہی پہلی مجلس سمجھی جاتی ہے۔ اس میں تقریباً ایک ہزار راہبوں نے شرکت کی تھی اور اس میں اختلافی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا تھا کہ گوتم کی تعلیمات کو تین کتابوں میں جمع کی گئیں، نیز تبلیغ کے لیے دور دراز مبلغ بھیجے گئے۔ سنگھ کی دوسری مجلس کنشک کی سرپرستی میں سری نگر کے قریب تقریباً 541ءمیں منعقد ہوئی جس میں اختلافات ختم کرنے کی آخری کوشش کی گئی۔ نیز بدھ کی تعلیمات پر صخیم کتاب لکھی گئی، جس کو تانبے پر کندہ کرا کر ایک خاص استوپہ میں رکھیں گئیں۔[6]

فرقے

[ترمیم]

بودھ مذہب میں اختلافات گوتم کی زندگی میں ہی پیدا ہو گئے تھے۔ ایک بھنگی کو سنگھ میں داخل کرنے پر اعلیٰ ذات کے ممبروں نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ذات کے علاوہ اور بہت سے مسائل نزاع کا باعث بن گئے تھے۔ مگر پھر بھی گوتم کی زندگی میں انھیں ابھرنے کا موقع نہیں ملا اور گوتم کی موت کے بعد انھوں نے شدت اختیار کرلی اور بہت جلد بدھ کے تابع اٹھارہ گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ اشوک اور کنشک کی سرپرستی میں جو مجالس منعقد ہوئیں، ان میں اختلافات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر دور نہ ہو سکے اور بالاآخر بدھ مذہب دو فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ جو ہنیان اور مہایان کے نام سے موسوم ہیں۔ اول الذکر مرکب اضغر (Lesser Wehicle) اور ثانی الذکر مرکب اکبر (Great Wehicle) بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں فرقوں میں سے ہر ایک متعدد ذیلی فرقوں میں تقسیم ہے۔ ہنیان فرقہ جزویات کو چھوڑ کر کلیات میں قدیم مذہب پر کاربند ہے۔ یہ گوتم کی تعلیمات کے مطابق روح اور خدائی کا قائل نہیں ہے، نیز گوتم کو ہادی مانتا ہے۔ مہایان اس کے برعکس گوتم کو ماقوق الانسان سمجھتا ہے اور اس کی مورت کو بحثیت دیوتا پوجا کرتا ہے۔ یہ گوتم کے علاوہ دوسرے دیوتاؤں کا قائل ہے اور ان کی پرستش بھی کرتا ہے۔ اس فرقے کی اشاعت کنشک کے دور میں زور شور سے ہوئی، اس لیے منگولیا، چین، جاپان اور تبت میں اسی کو غلبہ حاصل ہوا۔ مگر لنکا، برما، سیام اور مشرقی جزائر میں ہنیان نے پامردی سے مقابلہ کیا، لیکن بالاآخر اسے وہاں مغلوب کر لیا گیا۔[7]

ترقی کا سبب

[ترمیم]

بودھ مت کی ترقی و مقبولیت کا راز اس کے بانی کی بے داغ زندگی میں تھا۔ اس کے علاوہ بودھ مت کے اصول نہایت سادہ تھے۔ مذہبی و راہبانہ جماعت سنگھ نے اس کی اشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ابتدا میں راجاؤں اور سرداروں نے بھی اس کی سرپرستی کی۔ عام رواداری اور محبت کا پیغام عوام کے لیے جو برہمنی نظام کی قیود میں بندھے ہوئے تھے۔ بودھ مذہب کو ابتدا میں نیچی زات کے لوگوں اور ویشوں نے اختیار کیا تھا۔ پھر سرحدی ریاستوں کے راجاؤں نے اختیار کیا۔ جب اشوک نے بھی بودھ مت کا پیرو ہوکر اسے اپنی سلطنت کے سرکاری مذہب کا درجہ دیا، تو اس کی شہرت دور دور تک پھیل گیا۔ یہ مذہب وادی سندھ سے افغانستان اور وسط ایشیاء میں داخل ہوا اور براہ چین کے راستے کوریا تک پہنچ گیا۔ اس طرح لنکا، برما، تبت، سیام، نیپال اور ملایا کے لوگوں نے اسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ اشوک کے مبلغ یا بھکشو گاؤں گاؤں پھرتے اور اہنسا کا پرچار کرتے اور لوگوں کو جانوروں کی قربانی سے منع کرتے۔ رفتہ رفتہ ان بھکشوؤں کے لیے وہار اور استوپے تعمیر ہونے لگے اور یہ جگہیں تعلیم اور عبادت کامرکز بن گئیں۔ ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ ٹیکسلا کی پاٹ شالائیں جو وید کے بھجنوں اور اپنشدکے اشلوکوں سے گونجتی تھیں، بودھ مت کی درستگاہوں میں تبدیل ہوگئیں۔ موریا سلطنت کے زوال کے بعد باختر کے یونانیوں نےٹیکسلا کو پایہ تخت بنایا، تو انھوں نے بھی بودھ مذہب قبول کر لیا۔ اشوک کے عہد میں بہت سے یونانیوں نے بودھ مذہب قبول کر لیا تھا۔ چنانچہ مشہور بھکشو دھرم راجیکا جس سے ٹیکسلا کا ایک اسٹوپہ منسوب ہے یونانی تھا۔ اشوک نے اسے یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے بھیجا تھا۔ منیانڈر نے پٹنہ تسخیر کر لیا، مگر وہاں سے آکر اشوک کی طرح جنگ و جدل سے تائب ہو کر بودھ مت اختیار کر لیا اور آخر عمر میں راج پاٹ سے کنارہ کشی کرکے بھِکشو بن گیا۔ منیانڈر کے دربار میں بدھ مذہباور ہندو پنڈِتوں میں بحث مباحثے ہوتے رہتے تھے۔ بدھ مت کے سنتوں میں منیانڈرر کا درجہ بہت اونچا ہے۔ اس کے گرو ناگا سین نے منیانڈر کے جو مکالمات اور اقوال ’ملندا شا‘ کے نام سے مرتب کیے وہ آج بھی لنکا، برما اور تھائی لینڈ میں گوتم بدھ کا سب سے مقدس صحیفہ سمجھے جاتے ہیں۔ جب کشن قوم کے راجا کنشک نے اپنی سلطنت قائم کی تو اسنے بھی بدھ مت قبول کر لیا۔ اس نے اس کی ترقی و ترویح کے لیے بحت سے اقدامات کیے۔ جن میں بودھ مت کے فرقوں کے اختلافات ختم کرانے کے لیے مجلس کا انعقاد اور اپنے دار الحکومت پرش پورہ (پشاور) میں ایک اسٹوپا کی تعمیر شامل ہے۔ اس طرح وردھن خاندان کے راجا ہریش نے بھی بودھ مت قبول کر لیا تھا۔ وادی سندھ میں بودھ مت کی مقبولیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور چینی سیاح ہیونگ سانگ یہاں سے گذرا تو فقط سندھ میں کئی سو سنگھران موجود تھے اور بھکشوؤں کی تعداد بھی دس ہزار سے زائد تھی۔ حالانکہ اس وقت بودھ مت کو زوال آچکا تھا اور ہندو مذہب دوبارہ حاوی ہو تاجا رہا تھا۔[8]

بودھ مت کا زوال

[ترمیم]

بودھ مت پانچ سو سال تک برابر ترقی کرتا رہا اور رفتہ رفتہ ہندوستان کے علاوہ افغانستان، چین، برما، سیام اور مشرقی جزائر میں پھیل گیا۔ گو ایشیا کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اس کی ترقی رک گئی اور اس کا زوال شروع ہو گیا۔ ہندوستان میں اس کے پیرؤں کی تعداد دن بدن گھٹی گئی، آخر نویں صدی عیسوی آخر تک ہندوستان میں یہ بالکل ناپید ہو گیا۔ برصغیر میں بودھ مت کا زوال کا اہم سبب برہمنوں کی مخالفت تھی۔ وہ یہ جانتے تھے کہ اس مذہب کی ترقی میں ان کی موت پوشیدہ ہے، اس لیے وہ اسے ہر قیمت پر مٹانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک طرف گوتم کو شیوکا اوتار تسلیم کرکے اس مذہب کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف لوگوں کو تشدد پر اکسایا۔ کمارل بھٹ اور شنکر اچاریہ جیسے پرجوش ہندو مبلغین نے باضابطہ بدھوں کے خلاف مہم چلائی اور اپنی تقریروں سے لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت اور دشمنی کا جذبہ پیدا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا اس کے خلاف اکثر مقامات پر بلوے ہوئے اور بڑی بے دردی سے بودھوں کا قتل عام کیا گیا۔ بلاآخر بودھ مت اس سرزمین سے ناپید کر دیا گیا۔

گوتم نے جن بنیادی عقائد پر ایک مذہب کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے، نظر انداز کر دیا اور نہ وجود اللہ تعالٰی کے بارے میں کچھ بتایا اور نہ آخرت کا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھایا، بلکہ روح کے وجود سے انکار کرکے اخلاقی احکامات کی تمام بندشوں کو ڈھیلا کر دیا۔ اس بنیادی کمزوری کی وجہ سے یہ مذہب علم کے لوگوں میں مقبول نہیں ہو سکا۔ انھوں نے اسے ایک اصلاحی تحریک سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ نیز مسائل محتاج تشریح کی رہنے کی وجہ سے اس کے متعبین میں وہ شدت پیدا نہیں ہو سکی جو ہونی چاہیے تھے۔ اس مذہب کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ اس نے رہبانیت اور ترک دنیا پر زور دیا تھا۔ حلانکہ یہ تعلیم چند افرد کے لیے مناسب ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے ناقابل قبول اور ناممکن عمل ہے۔ یہ نقص اس مذہب کو ہمہ گیر بنانے میں سخت حائل رہا۔ علاوہ ازیں اس سے ایک طرح بودھوں کے اندر مختلف سفینہ حیات کو ترقی دینے اور منوانے کے جذبہ کو مردہ کر دیا۔ دوسری طرف راجاؤں کی سرپرستی ان کے اخلاقی انحاد کا باعث بنی۔ راہبانہ زندگی میں راجاؤں کی قربت اور نواشات ان کی اخلاقی طاقتوں کے لیے صبر آزما ثابت ہوئی۔ فطرتی کمزوریاں انھیں آرام طلب عیش پسند اور حریض بنے سے نہیں روک سکیں اور کچھ دنوں کے اندر ان کے سنگھ برائیوں کے مرکز بن گئے۔ اس مذہب کے اندر ایک اہم نقص عدم تشدد کی تعلیم تھی۔ جو اس کے زوال کا اہم سبب بنی۔ یہ تعلیم ممکن ہے راہبیانہ زندگی کے لیے اہمیت رکھتی ہو، مگر اجتماعی زندگی میں بہت تباہ کن اور مہلک چابت ہوئی۔ بودھوں نے اس اصول پر ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جو کرشن کے عدم تشدد کے قائل تھے اور انھوں نے تشدد کے لفظ کو بے معنی بنا دیا تھا۔ ایسی حالت مین جب کرشن کے ماننے والے ان کے خلاف آرستہ ہوئے، تو بچاؤ کی کوئی صورت پیدا ہو نہ سکی اور وہ تباہ ہو گئے۔[9]

سدھارتھ گوتم كا بت بودھ گیا، بھارت

چار عظیم سچائیاں

[ترمیم]
  1. زندگی دکھ ہی دکھ ہے
  2. دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔
  3. خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے۔
  4. خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چائیے۔

اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم (ترک خواہشات نفسانی اور اہنسا وغیرہ) راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی(Right Ecstasy) شامل ہیں۔

عقیدے کی تفصیل

[ترمیم]

دیندار کی منزل مقصود یہ ہے کہ وہ خواہشات کی قید سے نکل کر وجود (نروان) میں پہنچ جائے۔ فرد ایسے عناصر سے بنا ہے جو اس سے پہلی موجود تھے اور جو اس کے مرنے کے بعد منتشر ہو جائیں گے۔ اور جو دوبارہ تقریباً اسی شکل میں مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ آدمی اسی آواگون کے چکر سے نکلنے کے لیے مذہبی زندگی کے ذریعے کوشش کرتا ہے۔

اس مذہب میں ذات کو کوئی دخل نہیں ہے۔ مردوں ‘ عورتوں ‘ جوان اور بچے سب کو رحم دلی اختیار کرنے اور تکلیفیں سہنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے ’’ساکیہ منی‘‘ (گوتم بدھ) کے نزدیک نجات ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان کو خوشی و رنج‘ دوستی و دشمنی بلکہ تمام مصائب اور خواہشوں سے چھوٹ مل جاتی ہے۔

ایک بودھ مت کے فرقے کا قول ہے کہ خدا کچھ چیز نہیں سب سے بڑا ’’بودھ‘‘ ہوتا ہے۔ اب تک کئی بدھ ہو چکے ہیں گوتم بدھ پچیسواں بدھ ہے۔ اس مذہب کے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خدا موجود ہے لیکن اس نے دنیا کو پیدا نہیں کیا اور نہ اس کو دنیا کے کاموں اور انسانوں کے نیک و بد سے کوئی واسطہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ پھر بھی تمام چیزیں خدا کی مرضی سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ بدھ مت کے اکثر پیروکار ہندوؤں کے دیوتاؤں کو بھی مانتے ہیں لیکن ان کا درجہ بدھ سے کم مانتے ہیں۔ بدھ مت کے تصور معبود پر ہندو مذہب کی چھاپ پائی جاتی ہے۔ اس مذہب میں خواہشات کو سب مصیبتوں کی جڑ گردانا گیا ہے۔ خواہشات پر قابو پانے کے لیے آٹھ اصول بیان کیے ہیں :

  1. صحیح علم و عقیدہ
  2. صحیح ارادہ
  3. صحیح کلام
  4. صحیح عمل
  5. صحیح سلوک
  6. صحیح کوشش
  7. صحیح یادداشت
  8. صحیح غور و فکر ہیں۔[10]

بودھ مت کے کچھ خصوصی اجزاء

[ترمیم]

کرم یا کرما

[ترمیم]

لفظی معنی کام یا عمل کے ہیں۔ پس انسان کی زندگی پر بلکہ ہر زندہ جان کی زندگی پر اس کے اپنے اعمال کا اثر ہوتا ہے، خصوصاً دکھ کا سبب ہمیشہ انسان کے اپنے غلط یا مضر اعمال ہوتے ہیں۔ گوتم بدھ کا کہنا ہے کہ دکھ سے نجات موجودہ دنیا کے دائرۂ تکلیف میں حاصل کرنا ناممکن ہے۔[11]

اینتیہ

[ترمیم]

دنیا فانی ہے اس کا ثبوت اس بات میں ہے کہ وہ چیزیں جن سے ہم خوشی کی توقع کرتے ہیں مثلاً شہرت، اقتدار، بندھن اور پیسہ آخر کار دکھ کا باعث بنتے ہیں۔[11]

اودیہ

[ترمیم]

بے حسی۔ بنیادی طور پر انسان حقیقت سے محروم ہے اور اپنی زندگی بے حسی میں گزارتا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی دکھ ہے اور دکھ سے نجات پانے کے لیے اور نروان حاصل کرنے کے لیے انسان کو آگاہی کی تلاش کرنا ہو گی۔

بدھی

[ترمیم]

اس آگاہی کا نام بدھ یا بدھی ہے۔[11] سدھارتھ گوتم بودھ مت کے پہلے بدھ ضرور تھے لیکن ان کے بعد بھی کئی لوگ بودھ بن چکے ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار نہ صرف گوتم بدھ بلکہ اور بودھوں کے طریقے کی بھی پیروی کرتے ہیں۔

ارہٹ

[ترمیم]

وہ ذات جو دنیاوی بندھنوں کو مکمل طور سے چھوڑ کر نروان حاصل کر لیتا ہے۔

ناخدا پرستی

[ترمیم]

بودھ مت ناخدا پرست ہے۔ لیکن بدھ کے نظریات میں کہیں خدا کی مخالفت میں اشارہ نہیں ملتا۔ بدھ کے نظریہ ناخدا پرستی کا صرف یہی مطلب ہے کہ خدا کی پرستش نہ کر کے بھی نجات مل سکتی ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو یہ فلسفہ سانکھیہ کی بنیادوں سے ملتا جُلتا نظریہ ہے۔

بودھ مت کے فرقے

[ترمیم]

مہایان

[ترمیم]

اس مذہب کے مطابق زندگی کا مقصد نروان کی تلاش ہے اور دائرۂ تکالیف سے نجات ہے۔ اس کی کھوج میں کئی نیک افراد اپنی زندگی گزارتے ہیں تا کہ وہ خود بدھ بن سکیں۔ بودھ بننے کے بعد ان افراد کا فرض اور مقصد اور لوگوں کو انتیہ کا احساس دلانا ہے۔ ان افراد کو "بودھی ستوا" کہتے ہیں۔ یہ نروان حاصل کر سکتے ہیں لیکن گوتم بدھ کی طرح اپنے نروان کی قربانی دے کر وہ اوروں کو نروان کے راستے پر چلاتے ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار تبت، منگولیا، کوریا، جاپان، ویتنام اور چین میں پائے جاتے ہیں۔[12]

تھیرواد

[ترمیم]

اس مذہب کے مطابق زندگی کا مقصد نروان حاصل کرنا ہے۔ اس لیے انسان کی بہترین شکل "ارہٹ" کی شکل ہوتی ہے۔ چونکہ نروان زندگی اور موت سے بعید ایک اور ہہی حالت ہوتی ہے۔ ہر انسان کی کھوج نروان کے لیے ہونی چاہیے۔ سری لنکا، تھائی لینڈ، لاؤس، برما اور کمبوڈیا میں اس مذہب کے پیروکار پائے جاتے ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. بدھ مت کے پیروکاروں کی تعداد 2015 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ gordonconwell.edu (Error: unknown archive URL)خطا ترجمہ: {{En}} یہ محض فائل نام فضا میں استعمال ہو گا۔ اس کی بجائے {{lang-en}} یا {{in lang|en}} استعمال کریں۔
  2. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 583 تا 883
  3. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 983 تا 393
  4. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 893 تا 504
  5. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 604 تا 804
  6. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 804 تا 904
  7. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 904 تا 014
  8. سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ 121۔ 421
  9. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم، 014 تا 514
  10. بدھ ازم / بُدھ مَت
  11. ^ ا ب پ Feiser & Powers, P.72
  12. Feiser & Powers